ar.saghar

Add To collaction

سعادت حسن منٹو کے ساتھ لڑائی

🌹سعادت حسن منٹو کے ساتھ لڑائی🌹

آخری  قسط۔۔

 

برخوردار ہمارے  زمانے کے راجے مہاراجے اس طرح کے کوٹھوں پر اپنی اولادیں کو تہذیب سکھانے کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ جو رکھ رکھاؤ گفتار میں شائستگی،لہجے میں نفاست ان لوگوں کے پاس ہوتی تھی وہ کہیں بھی نہیں ملتی تھی۔ مگر برخوردار زمانے نے کروٹ لی ہے۔ بطور علامہ اقبال ؒ  کے

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں

اب تو یہ بے چاری کوٹھےوالی خواتین خوامخواہ میں بد نام ہیں ۔ اب تو معاشرے میں ان سے بڑھ کر بہت ساری خرافات نے جنم لے لیا ہے۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے  ہر گھر میں ناچ گانے والیاں پہنچ چکی ہیں ہر گھر میں طبلہ ۔ ساز ۔ سارنگی بجائے جا رہے ہیں ۔ اب ہر بچے بوڑھے کے کانوں میں اس برادری نے اپنے ڈیرے جما لئے ہیں۔ پہلے پہل تو مخصوص علاقہ مخصوص گھرانوں کی خواتین باامر مجبوری طوائفیں بنا کرتی تھی۔ اور شام کو محفلوں میں شہرکے معززین اور شرفاء کی دلجمعی کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ اب تو تقریبا ہر امیر غریب  گھرانے کی لڑکیا ں گھروں  میں بیٹھ کر اپنے گھروالوں کے سامنے ناچ ناچ کر  ویڈیو ریکارڈ کر کے پوری دنیا سے داد سمیٹ رہی ہیں۔ پہلے والی خواتین مجبور ااور آج کی خواتین شوقیہ طور پر یہ کام سر انجام دے رہی ہیں ۔ اب تو پوری دنیا اسی کام کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ بلکہ اس کام کے ایوارڈ بھی دیئے جارہے ہیں۔

یقین مانیں منٹو صاحب کے الفاظ میرے سینے میں برمے کا کام سر انجام دے رہے تھے۔ میں جو اول فول بک چکا تھا اب میرا سر شرم سے جھک چکا تھا۔ مجھے چھپنے کو جگہ نہیں مل پا رہی تھی۔ ٹھنڈے پسینے سے میرا ماتھا لبریز ہو چکا تھا۔ مگر منٹو صاحب تھے کہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

اندر سے کسی ادھیڑ عمر عورت کی آواز آئی منٹو صاحب چائے تیار ہے ۔ کیا حکم ہے۔ مراثی بھی پہنچ چکا ہے۔ اور خان صاحب نے پیٹی بھی نکال لی ہے۔ بس لاڈو تھوڑی دیر میں گھنگھرو پہن کر حاضر ہوتی ہے۔ اور آپ کے لئے ولایتی کا بھی  خاص انتظام کیا گیا ہے۔

منٹو صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور آنے والے آواز کی طرف رخ کر کے گویا ہوئے نہیں کمو بائی آج ہم لاڈو کو نہیں بلکہ رخسار کے ٹھمکے دیکھنے آئے ہیں ۔ اور ساتھ میں مہ رخ کی آواز بھی سننے کے شائق ہیں۔ لہذا جلدی سے انہیں بھی تیار کر لیجئے ۔

لاحول ولا قوۃ الا باللہ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا وہ تو شکر ہے آواز اونچی نہیں تھی ورنہ منٹو صاحب سن لیتے تو قیامت ہوتی۔ دل میں میرے ہزار گالیاں طوفان کی شکل بپا تھیں۔ بڈھا کھوسٹ چار نمبر کی عینک لگائے حسیناؤں کے ٹھمکے دیکھتا ہے۔

اتنے میں گلا کھنکارتے ہوئے منٹو صاحب نے ایک بار پھر اپنے لفظوں کی بوچھاڑ کا رخ میری طرف موڑ دیا۔ ہاں تو برخوردار میں یہ کہہ رہا تھا کہ اب تو آپ جیسے منچلوں کو یہاں آنے کی بالکل حاجت نہیں رہی۔ اب تو ماشاءاللہ رات ہوتے ہی سوشل میڈیا پر خوبصورت تتلیاں چند ٹکوں کے عوض تمام تر حشر سامانی کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ اب تو صرف آپ کو اکیلا کمرہ نیٹ پیکج اور موبائل کی ضرورت ہے ۔ اکیلا کمرہ نہ بھی ہوتو کمبل کھیس چادر وغیر کا استعمال بخوبی کیا جا سکتاہے۔ اور ساتھ میں ہینڈ فری نے تو ایسا کمال کر دیا ہے کہ کانوں میں زبردست ایمیلی فائر بجا دیئے ہیں جبکہ ساتھ سونے والے کو خبر تک بھی نہیں لگنے دیتے ۔ جبکہ تمام تر سہولیات آپ کو گھر میں دستیاب ہو رہی ہیں تو پھر ہم جیسے معزز لوگوں کی عزت پر لات مارنے کیوں آ جاتے ہو۔

یقین مانیں پروین شاکر کا شعر میرے دماغ میں ہتھوڑے برسانے لگا

بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی

میں پسینے سے شرابور شرم سے جھکائے منٹو صاحب کی عدالت میں بیٹھا ذلیل و خوار ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ منٹو صاحب انہتائی حقائق پر قلم اٹھاتے ہیں۔ اب میں ان کی ساری تحریروں کا معترف ہو چکا تھا۔ مگر شرمندگی کا یہ عالم تھا کہ مجھے چھپنے کو کہیں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اڑ کر نکل جاتا ۔ اتنے میں وہ حسینہ مہ رخ ایک بار پھر کھنکتی چوڑیوں کے ساتھ باہر تشریف لا رہی تھی کیا کروں شرم کے مارے سر جھکا ہوا تھا ورنہ الوداعی نگاہ اس پر ضرور ڈالتا ۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق معذرت خواہانہ لہجہ اپناتے ہوئے جیسے ہی واپس جانے کے مڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ وہ تو یاد آیا کہ شام کو نیند کی گولی کھا کر سویا تھا۔ جس کی وجہ سے آ ج دیر تک سوتا رہا۔ 

   7
1 Comments

Maria akram khan

09-Sep-2022 05:58 PM

👍👍👍❤️❤️❤️

Reply